وہ رینگنے لگی کشتی‘ وہ بادبان کھلا

شکیب جلالی


وہ دوریوں کا رہِ آب پر نشان کھلا
وہ رینگنے لگی کشتی‘ وہ بادبان کھلا
مرے ہی کان میں سرگوشیاں سکوت نے کیں
مرے سوا بھی کسی سے یہ بے زبان کھلا
سمجھ رہا تھا ستارے جنہیں ‘ وہ آنکھیں ہیں
مری طرف نگراں ہیں کئی جہان‘ کھلا
مرا خزانہ ہے محفوظ میرے سینے میں
میں سو رہوں گا یونہی چھوڑ کر مکان کھلا
ہر آن میرا نیا رنگ ہے یوں ہی‘ نیا چہرہ
وہ بھید ہوں جو کسی سے نہ میری جان‘ کھلا
جزا کہیں کہ سزا‘ اس کو بال و پر والے
زمیں سکڑتی گئی‘ جتنا آسمان کھلا
لہو لہو ہوں سلاخوں سے سر کو ٹکرا کر
شکیبؔ‘ بابِ قفس‘ کیا کہوں ‘ کس آن کھلا
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست