پستی سے ہم کنار ملے کوہ سار بھی

شکیب جلالی


آیا ہے ہر چڑھائی کے بعد اک اتار بھی
پستی سے ہم کنار ملے کوہ سار بھی
آخر کو تھک کے بیٹھ گئی اک مقام پر
کچھ دور میرے ساتھ چلی رہ گزار بھی
دل کیوں دھڑکنے لگتا ہے ابھرے جو کوئی چاپ
اب تو نہیں کسی کا مجھے انتظار بھی
جب بھی سکوتِ شام میں آیا ترا خیال
کچھ دیر کو ٹھہر سا گیا آبشار بھی
کچھ ہو گیا ہے دھوپ سے خاکستری بدن
کچھ جم گیا ہے راہ کا مجھ پر غبار بھی
اس فاصلوں کے دشت میں رہبر وہی بنے
جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی
اے دوست‘ پہلے قرب کا نشہ عجیب تھا
میں سن سکا نہ اپنے بدن کی پکار بھی
رستہ بھی واپسی کا کہیں بن میں کھو گیا
اوجھل ہوئی نگاہ سے ہرنوں کی ڈار بھی
کیوں رو رہے ہو راہ کے اندھے چراغ کو!
کیا بجھ گیا ہوا سے لہو کا شرار بھی؟
کچھ عقل بھی ہے باعثِ توقیر‘ اے شکیبؔ
کچھ آ گئے ہیں بالوں میں چاندی کے تار بھی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست