تری خیر شہرِ ستم ہوئی کوئی درمیان میں آ گیا

عرفان صدیقی


میں چلا تھا سوچ کے اور کچھ کہ کچھ اور دھیان میں آ گیا
تری خیر شہرِ ستم ہوئی کوئی درمیان میں آ گیا
نہ وہ خواب ہیں نہ سراب ہیں نہ وہ داغ ہیں نہ چراغ ہیں
یہ میں کس گلی میں پہنچ گیا، یہ میں کس مکان میں آ گیا
یہ لگن تھی خاک اڑائیے ، کبھی بارشوں میں نہائیے
وہ ہوا چلی وہ گھٹا اٹھی تو میں سائبان میں آ گیا
نہ سخن حکایت حال تھا، نہ شکایتوں کا خیال تھا
کوئی خار دشت ملال تھا جو مری زبان میں آ گیا
فہرست