چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے آن لگی

شیخ ابراہیم ذوق


نگہ کا وار تھا دل پر پھڑکنے جان لگی
چلی تھی برچھی کسی پر کسی کے آن لگی
ترا زباں سے ملانا زباں جو یاد آیا
نہ ہائے ہائے میں تالو سے پھر زبان لگی
کسی کے دل کا سنو حالِ دل لگا کر تم
جو ہووے دل کو تمہارے بھی مہربان لگی
تو وہ ہے ماہ جبیں مثل دیدۂِ انجم
رہے ہے تیری طرف چشم یک جہان لگی
خدا کرے کہے تجھ سے یہ کچھ خدا لگتی
کہ زلف اے بت بدکیشں تیرے کان لگی
اڑائی حرص نے آ کر جہاں میں سب کی خاک
نہیں ہے کس کو ہوا زیر آسمان لگی
کسی کی کاوش مژگاں سے آج ساری رات
نہیں پلک سے پلک میری ایک آن لگی
تباہ بحر جہاں میں تھی اپنی کشتی عمر
سو ٹوٹ پھوٹ کے بارے کنارے آن لگی
تمہارے ہاتھ سے سینے میں دل سے تابہ جگر
سنان و خنجر و پیکاں کی ہے دکان لگی
خدنگ یار مرے دل سے کس طرح نکلے
کہ اس کے ساتھ ہے اے ذوقؔ میری جان لگی
فہرست