ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا

مصطفٰی خان شیفتہ


کچھ امتیاز مجھ کو نہ مے کا نہ سارکا
ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا
لگتی نہیں پلک سے پلک جو تمام شب
ہے ایک شعبدہ مژہِ نیم باز کا
دشمن پئے صبوح جگاتے ہیں یار کو
یہ وقت ہے نسیمِ سحر اھتزاز کا
ایمن ہیں اہلِ جذبہ کہ رہبر ہے ان کے ساتھ
سالک کو ہے خیال نشیب و فراز کا
پھنسنے کے بعد بھی ہے وہی دل شگفتگی
کیا خوب جال ہے نگہِ جاں نواز کا
تقویٰ مرا شعار ہے ، عصمت سرشتِ دوست
پھر مجھ سے کون سا ہے سبب احتراز کا
بارے عجیب بات تو پھیلی جہان میں
پایا کسی نے گو ثمر افشائے راز کا
ساقی کے ہیں اگر یہی الطاف، کیا عجب
ارض و سما میں ہوش نہ ہو امتیاز کا
پیرِ مغاں نے رات کو وہ کچھ دکھا دیا
ہرگز رہا نہ دھیان بھی حسنِ مجاز کا
دیتا ہے داغِ رشک پرندِ سپہر کو
جلوہ تمہاری معجزِ گوہر طراز کا
پانی وضو کو لاؤ، رخِ شمع زرد ہے
مینا اٹھاؤ وقت اب آیا نماز کا
یکتا کسی کو ہم نے نہ دیکھا جہان میں
طولِ امل جواب ہے زلفِ دراز کا
جورِ اجل کو شوخی بے جا کہا کیا
تھا مست شیفتہ جو کسی مستِ ناز کا
فہرست