انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا

مصطفٰی خان شیفتہ


کیا لائقِ زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا
اس قوم کی سرشت میں ہے کم محبتی
شکوہ جو اس سے تھا مجھے ہرگز بجا نہ تھا
تاثیرِ نالہ نکتۂِ بعد الوقوع ہے
یاں غیرِ رسم اور کوئی مدعا نہ تھا
وحشت تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ تپش نہ تھی
شورش تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ مزا نہ تھا
ان کی نگاہِ ناز عجب تازیانہ تھی
مقدور پھر ادھر نظرِ شوق کا نہ تھا
افسوس وہ مظاہرِ کونی میں پھنس گیا
جو عالمِ عقول سے نا آشنا نہ تھا
شرماتے اس قدر رہے کیوں آپ رات کو
مدت سے گو ملے تھے مگر میں نیا نہ تھا
بے پردہ ان کے آنے سے حیرت ہوئی مجھے
وصلِ عدو کی رات تھی روز جزاً نہ تھا
نان و نمک کی تھی ہمیں توفیق شیفتہ
ساز و نوا کے واسطے برگ و نوا نہ تھا
فہرست