میں ہوں وہ قطرۂِ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر

مرزا غالب


لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂِ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر
نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂِ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر
فنا ’’تعلیم درس بے خودی‘‘ ہوں اس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر
نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومار ناز ایسا
کہ پشت چشم سے جس کی نہ ہووے مہر عنواں پر
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
بجز پرواز شوق ناز کیا باقی رہا ہو گا
قیامت اک ہوائے تند ہے خاک شہیداں پر
نہ لڑ ناصح سے ، غالب، کیا ہوا گر اس نے شدت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر
فہرست