ہے تقاضائے جفا، شکوۂِ بیداد نہیں

مرزا غالب


نالہ جز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂِ بیداد نہیں
عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خوب!
ہم کو تسلیم نکو نامی فرہاد نہیں
کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب
لطمۂِ موج کم از سیلی استاد نہیں
وائے مظلومی تسلیم! وبداحالِ وفا!
جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں
رنگِ تمکینِ گل و لالہ پریشاں کیوں ہے ؟
گر چراغانِ سرِ راہ گزرِ باد نہیں
سبدِ گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں!
مژدہ اے مرغ! کہ گلزار میں صیاد نہیں
نفی سے کرتی ہے اثبات طراوش گویا
دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد نہیں
کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے ، اس قدر آباد نہیں
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالب
تم کو بے مہری یارانِ وطن یاد نہیں؟
فہرست