یہ بھی اے حضرتِ ایوب! گلا ہے تو سہی

مرزا غالب


آپ نے مسنی الضر کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرتِ ایوب! گلا ہے تو سہی
رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
ذہن میں خوبی تسلیم و رضا ہے تو سہی
ہے غنیمت کہ بہ امید گزر جائے گی عمر
نہ ملے داد، مگر روز جزاً ہے تو سہی
دوست ہی کوئی نہیں ہے ، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، لیک تمنائے دوا ہے تو سہی
غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اس نے
نہ سہی ہم سے ، پر اس بت میں وفا ہے تو سہی
نقل کرتا ہوں اسے نامۂِ اعمال میں میں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی
کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالب
شہرۂِ تیزی شمشیر قضا ہے تو سہی
فہرست