جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے

باقی صدیقی


دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے
جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے
جذبِ دل کے کوئی معنی نہ رہے
کس سے عجز لبِ گویا کہیے
کوئی آواز بھی آواز نہیں
دل کو اب دل کی تمنا کہیے
اتنا آباد کہ ہم شور میں گم
اتنا سنسان کہ صحرا کہیے
ہے حقیقت کی حقیقت دنیا
اور تماشے کا تماشا کہیے
لوگ چلتی ہوئی تصویریں ہیں
شہر کو شہر کا نقشہ کہیے
خونِ دل حاصل نظارہ ہے
نگہ شوق کو پردا کہیے
شاخ جب کوئی چمن میں ٹوٹے
اسے انداز صبا کا کہیے
دیدہ ور کون ہے ایسا باقیؔ
چشمِ نرگس کو بھی بینا کہیے
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست