کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں

باقی صدیقی


میں ہر اک محفل میں اس امید پر بیٹھا رہوں
کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں
دھوپ کی صورت مرے ہمراہ تو چلتا رہے
سائے کیمانند میں گھٹتا رہوں بڑھتا رہوں
ایک طوفاں کی طرح تو مجھ سے ٹکراتا رہے
اور ساحل کی طرح کٹ کٹ کے میں گرتا رہوں
تو لہو کی طرح میرے جسم میں گردش کرے
سانس کی مانند میں آتا رہوں جاتا رہوں
دشتِ دل سے تو صبا بن کے اگر گزرے تو میں
قطرہ بن کے نوکِ خار زیست پھر ٹھہرا رہوں
دائرے آبِ رواں کے ٹوٹتے بنتے رہیں
اور اپنی شکل میں بیٹھا ہوا تکتا رہوں
زندگی کے مرحلے دنیا کی خاطر طے کروں
اور محبت کے لیے میں عمر بھر پیاسا رہوں
کر دیا ہے کام کیسا تو نے یہ میرے سپرد
رات بھر آوارہ قدموں کی صدا سنتا رہوں
میری حسرت کا تقاضا ہے کہ تیری آرزو
موسمِ گل میں شکستہ شاخ پر بیٹھا رہوں
زندگی دو حادثوں کے درمیاں اک حادثہ
میں کہاں تک حادثوں کے درمیاں بہتا رہوں
زندہ رہنے کا تو باقیؔ یہ بھی اک انداز ہے
بیٹھ کر غیروں میں اپنے آپ پر ہنستا رہوں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست