فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے

باقی صدیقی


علاج تلخیِ ایام کی ضرورت ہے
فسانے ہو چکے اب کام کی ضرورت ہے
مری حیات بی صدمے اٹھا نہی سکتی
تری نظر کو بھی آرام کی ضرورت ہے
غمِ جہاں کا تصور بھی جرم ہے اب تو
غمِ جہاں کو نئے نام کی ضرورت ہے
نظامِ کہنے کی باتیں نہ کر کہ اب ساقی
نئی شراب، نئے جام کی ضرورت ہے
ترے لبوں پہ زمانے کی بات ہے باقیؔ
تجھے بھی کیا کسی الزام کی ضرورت ہے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست