سب پھول ہی نہیں کانٹے بھی تھے چمن میں

قمر جلالوی


صبر آ گیا یہ کہہ کر دل سے غمِ وطن میں
سب پھول ہی نہیں کانٹے بھی تھے چمن میں
بلبل ہے گلستاں میں پروانہ انجمن میں
سب اپنے اپنے گھر ہیں اک ہم نہیں وطن میں
صیاد باغباں کی ہم سے کبھی نہ کھٹکی
جیسے رہے قفس میں ویسے رہے چمن میں
دامان آسماں کو تاروں سے کیا تعلق
ٹان کے لگے ہوئے ہیں بوسیدہ پیرہن میں
سنتے ہیں اب وہاں بھی چھائی ہوئی ہے ظلمت
ہم تو چراغ جلتے چھوڑ آئے تھے وطن میں
کچھ اتنے مختلف ہیں احباب جب اور اب کے
ہوتا ہے فرق جتنا رہبر میں راہزن میں
صیاد آج کل میں شاید قفس بدل دے
خوشبو بتا رہی ہے پھول آ گئے چمن میں
اے باغباں تجھے بھی اتنی خبر تو ہو گی
جب ہم چمن میں آئے کچھ بھی نہ تھا چمن میں
سونی پڑی ہے محفل، محفل میں جا کے بیٹھو
آتے نہیں پتنگے بے شمعِ انجمن میں
دیدار آخری پر روئے قمر وہ کیا کیا
یاد آئیں گی وفائیں منہ دیکھ کر کفن میں
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست