بات تھی آئی گئی ہو گئی دیوانوں کی

قمر جلالوی


عمر بھر خاک ہی کیا چھانتے ویرانوں کی
بات تھی آئی گئی ہو گئی دیوانوں کی
کون کہہ دے گا کہ باتیں ہیں دیوانوں کی
دھجیاں جیب میں رکھی ہیں گریبانوں کی
جا چکے چھوڑ کر آزادیاں ویرانوں کی
اب تو بستی میں خبر جائے گی دیوانوں کی
یادگاریں نہیں کچھ اور تو دیوانوں کی
دھجیاں ملتی ہیں صحرا میں گریبانوں کی
خیر محفل میں نہیں حسن کے دیوانوں کی
شمع کے بھیس میں موت آئی ہے پروانوں کی
تو بھی کب توڑنے کو پھول چلا ہے گلچیں
آنکھ جب کھل گئی گلشن کے نگہبانوں کی
صرف اک اپنی نمود سرِ محفل کے لیے
لاکھوں قربانیاں دیں شمع نے پروانوں کی
شمع کے بعد پتنگوں نے کسی کو پوچھا
کہیں پرسش ہوئی ان سوختہ سامانوں کی
لنگر اٹھتا تھا کہ اس طرح سے کشتی بیٹھی
جیسے ساحل سے حدیں مل گئیں طوفانوں کی
اے قمر رات کو مے خانے میں اتنا تھا ہجوم
قسمتیں کھل گئیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست