کہ اے شمعِ فرقت نہ ہم ہونگے نہ تو ہو گی

قمر جلالوی


اگر وہ صبح کو آئے تو کس سے گفتگو ہو گی
کہ اے شمعِ فرقت نہ ہم ہونگے نہ تو ہو گی
حقیقت جب تجھے معلوم اے دیوانہ خو ہو گی
جب ان کی جستجو کے بعد اپنی جستجو ہو گی
ملیں گے ہو بہو تجھ سے حسیں آئینہ خانے میں
کسی سے کچھ نہ کہنا ورنہ تم سے دو بدو ہو گی
مآلِ گل کو جب تک آنکھ سے دیکھا نہیں ہو گا
کلی کو پھول بن جانے کی کیا کیا آرزو ہو گی
دلِ مضطرب تو اس محفل میں نالے ضبط کر لے گا
مگر اے چشمِ گریاں تو بہت بے آبرو ہو گی
حریمِ ناز تک تو آ گیا ہوں کس سے کیا پوچھوں
یہاں جلوہ دکھایا جائے گا یا گفتگو ہو گی
جنہیں اے راہبر لٹوا رہے ہیں راہِ منزل میں
خدا معلوم ان کے دل میں کیا کیا آرزو ہو گی
ہمارا کیا ہے ارمانِ وفا میں جان دے دیں گے
مگر تم کیا کرو گے جب تمھیں یہ آرزو ہو گی
یہ بلبل جس کی آوازیں خزاں میں اتنی دلکش ہیں
بہاروں میں خدا معلوم کتنی خوش گلو ہو گی
قمر سنتے ہیں تو شیخ صاحب آج توڑیں گے
سجے گا میکدہ آرائش جام و سبو ہو گی
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست