میں نہ سمجھا تھا محبت اس قدر بدنام ہے

قمر جلالوی


سن کے نامِ عشق برہم وہ بتِ خود کام ہے
میں نہ سمجھا تھا محبت اس قدر بدنام ہے
نامہ بر ان سے کہنا نزع کا ہنگام ہے
ابتدائے خط نہیں یہ آخری پیغام ہے
چارہ گر میرے سکوں پر یہ نہ کہہ آرام ہے
اضطرابِ دل نہ ہونا موت کا پیغام ہے
ان کے جاتے ہی مری آنکھوں میں دنیا ہے سیاہ
اب نہیں معلوم ہوتا صبح ہے یا شام ہے
قافلے سے چھوٹنے والے ابھی منزل کہاں
دور تک سنسان جنگل ہے پھر آگے شام ہے
آپ کیوں پردے سے نکلے آپ پردے میں رہیں
آپ کو مشہور کر دینا ہمارا کام ہے
دیدۂ بیمار میں ہے اشکِ آخر کی جھلک
اے قمر تارا نکل آنا دلیلِ شام ہے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست