ہم کو جو رنج ہے وہ جرأت فریاد سے ہے

عرفان صدیقی


شکوہ کوئی بھی نہ دستِ ستم ایجاد سے ہے
ہم کو جو رنج ہے وہ جرأت فریاد سے ہے
داستانوں میں تو ہم نے بھی پڑھا ہے ، لیکن
آدمی کا بھی کوئی رشتہ پری زاد سے ہے
زندہ ہے ذہن میں گزرے ہوئے لمحوں کی مہک
دشت آباد بہت، نکہتِ برباد سے ہے
سچ تو یہ ہے کہ تری نوک پلک کا رشتہ
آخر کار ترے حسنِ خداداد سے ہے
اس بلندی سے تجھے چاہے میں دکھلائی نہ دوں
پھر بھی کچھ ربط تو دیوار کا بنیاد سے ہے
زہر کا جام ہو یا منبرِ دانش، عرفانؔ
ابنِ آدم کا جو ورثہ ہے وہ اجداد سے ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست