پھر نہ کہنا کوئی زنجیر تمہارے لیے ہے

عرفان صدیقی


جاؤ اب دشت ہی تعزیر تمہارے لیے ہے
پھر نہ کہنا کوئی زنجیر تمہارے لیے ہے
اپنے ہی دستِ تہی ظرف نے مارا تم کو
اب بکھر جانا ہی اکسیر تمہارے لیے ہے
آخرِ شب تمہیں آنکھوں کا بھرم کھونا تھا
اب کوئی خواب نہ تعبیر تمہارے لیے ہے
عکس نظارہ کرو زود پشیمانی کا
اب تمہاری یہی تصویر تمہارے لیے ہے
آج سے تم پہ درِ حرف و نوا بند ہوا
اب کوئی لفظ نہ تاثیر تمہارے لیے ہے
منصبِ درد سے دل نے تمہیں معزول کیا
تم سمجھتے تھے یہ جاگیر تمہارے لیے ہے
فہرست