جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے

عرفان صدیقی


کوئی میرے دل حیراں کا سراپا دیکھے
جیسے بچہ کسی میلے میں تماشا دیکھے
باندھ کر جانے کہاں لے گئی قسمت کی کمند
وہ چلا تھا کہ ذرا وسعتِ صحرا دیکھے
یہ تو اک بھولا ہوا چہرہ ہے ، جب یاد آ جائے
شام دیکھے نہ یہ مہتاب سویرا دیکھے
میں اب ان چھوٹی سی خوشیوں کے سوا کیا چاہوں
پیاس بوندوں سے نہ بجھ پائے تو دریا دیکھے
فہرست