رات چراغِ ساعتِ ہجراں روشن طاقِ وصال میں تھا

عرفان صدیقی


تیرا سراپا میرا تماشا، کوئی تو برجِ زوال میں تھا
رات چراغِ ساعتِ ہجراں روشن طاقِ وصال میں تھا
میری چشمِ تحیر آگے اور ہی نقش ہویدا تھے
چہرہ اپنے وہم میں تھا‘ آئینہ اپنے خیال میں تھا
عقدۂ جاں بھی رمزِ جفر ہے ‘ جتنا جتنا غور کیا
جو بھی جواب تھا میرا پنہاں میرے حرف سوال میں تھا
تیر سہی‘ زنجیر سہی‘ پر ہوئے بیاباں کہتی ہے
اور بھی کچھ وحشت کے علاوہ شاید پائے غزال میں تھا
ورنہ ہم ابدال بھلا کب ترکِ قناعت کرتے ہیں
ایک تقاضا رنجِ سفر کا خواہش مال و منال میں تھا
تیغِ ستم کے گرد ہمارے خالی ہاتھ حمائل تھے
اب کے برس بھی ایک کرشمہ اپنے دستِ کمال میں تھا
فہرست