مدتیں ہو گئیں ڈوبا تھا وہ چہرہ مجھ میں

عرفان صدیقی


پھر کسی نام کا مہتاب نہ نکلا مجھ میں
مدتیں ہو گئیں ڈوبا تھا وہ چہرہ مجھ میں
روز و شب جسم کی دیوار سے ٹکراتا ہے
قید کر رکھا ہے کس نے یہ پرندہ مجھ میں
ایک مدت سے مری بیعتِ جاں مانگتی تھی!
آج خاموش ہے کیا دیکھ کے دنیا مجھ میں
ویسے میرے خس و خاشاک میں کیا رکھا ہے
آگ دکھلاؤ تو نکلے گا تماشا مجھ میں
ریت اڑتی ہے بہت ساحل احساس کے پاس
سوکھتا جاتا ہے شاید کوئی دریا مجھ میں
اب میں خود سے بھی مخاطب نہیں ہونے پاتا
جب سے چپ ہو گیا وہ بولنے والا مجھ میں
فہرست