شکن ابھی کوئی ابروئے نکتہ چیں پہ نہیں

عرفان صدیقی


تو اس کا دھیان مرے مصرعِ حسیں پہ نہیں
شکن ابھی کوئی ابروئے نکتہ چیں پہ نہیں
مکان چھوڑ گئے لوگ، ڈھونڈتے ہو کسے
کوئی ستارہ اب اس بامِ انجمن پہ نہیں
بہت ملی تھیں دعائیں فلک نشینی کی
ہمارا کچھ بھی بدن کے سوا زمیں پہ نہیں
اب ایسے شخص کو قاتل کہیں تو کیسے کہیں
لہو کا کوئی نشاں اس کی آستیں پہ نہیں
اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہو گا
وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں
میں جل رہا ہوں حقیقت کی دھوپ میں کب سے
کسی گماں کا بھی سایہ مرے یقیں پہ نہیں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست