اس کا پیکر روشنی، میرا مقدر روشنی

عرفان صدیقی


جسم و جاں کی آگ سے منظر بہ منظر روشنی
اس کا پیکر روشنی، میرا مقدر روشنی
میں نے رات اک خواب دیکھا اور روشن ہو گیا
دیکھتا کیا ہوں کہ ہے میرے برابر روشنی
اور اے روشن قبا تجھ سے ہمیں کیا چاہیے
ایک دامن بھر ہوا اور اک دیا بھر روشنی
میں کوئی جگنو نہ تارا، میں کوئی سورج نہ چاند
اور تو دیکھے تو ہے مٹی کے اندر روشنی
اکثر اکثر اس کا چہرہ دھیان میں آتا بھی ہے
جیسے گم ہو جائے جنگل میں چمک کر روشنی
میرے مولا، ہجر کی تاریک راتوں کے طفیل
زندگی بھر چاہتیں اور زندگی بھر روشنی
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست