یعنی در بہشت کو یکبار توڑیے

انشاء اللہ خان انشا


ہے جس میں قفل خانۂِ خمار توڑیے
یعنی در بہشت کو یکبار توڑیے
کیوں قید خم میں دخترِ رز ہی پڑی رہے
یہ مہر ریسمان‌ سروکار توڑیے
شاگرد امیر‌ حمزۂِ صاحب قراں کے ہیں
کیوں کر بھلا نہ قلعۂِ اشرار توڑیے
کیجے لقائے باختر بے بقا کو قید
نجتک کے سر پہ گرز گراں بار توڑیے
چوٹی پکڑ کے نرگسِ جادو کی کھینچیے
کلے کو اس کے ماریے للکار توڑیے
رستم سے چھین لیجیے دیو‌ سفید کو
اور اس کی دہ مروڑ کے تلوار توڑیے
سد سکندری بھی جو چڑھ جائے دھیان تو
ووہیں طفیل حیدرِ کرار توڑیے
آ جاویں ہفت خوان طلسمات سامنے
تو خیر سے انہیں بھی بہ تکرار توڑیے
حصن‌ زمردین عدو کوہ قاف پر
ہووے تو اس کو بھیج کے عیار توڑیے
زنبیل ہے عمرو کی دل فکر خیز یہ
اس کو کسی طرح سے نہ زنہار توڑیے
ہے عزم جزم یہ کہ زبردستی آج تو
بندِ قبا ہے موسم گلزار توڑیے
یا چھیڑنے کو ابر کے اک جھٹکا مار کر
شلوار بند برق شرربار توڑیے
جی چاہتا ہے لے کے بلائیں تمہاری آج
پوریں ان انگلیوں کو سب اے یار توڑیے
انشاؔ دکھا کے اور بھی اک جلوۂِ غزل
بند نقاب شاہد اسرار توڑیے
فہرست