اے چشمِ اعتبار پریشاں نہ کر مجھے

عرفان صدیقی


جب وہم ہے وہ شکل تو حیراں نہ کر مجھے
اے چشمِ اعتبار پریشاں نہ کر مجھے
اس روشنی میں تیرا بھی پیکر نظر نہ آئے
اچھا یہ بات ہے تو فروزاں نہ کر مجھے
آئینہ سکوت نہ رکھ سب کے روبرو
میں دل پہ نقش ہوں تو نمایاں نہ کر مجھے
یوسف نہیں ہوں مصر کے بازار میں نہ بیچ
میں تیرا انتخاب ہوں ارزاں نہ کر مجھے
کون ایسی بستیوں سے گزرتا ہے روز روز
میرے کرشمہ ساز‘ بیاباں نہ کر مجھے
میں برگ ریزِ ہجر میں زندہ نہ رہ سکوں
اتنا امیدوارِ بہاراں نہ کر مجھے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست