گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ

بہادر شاہ ظفر


دیکھ دل کو مرے او کافر بے پیر نہ توڑ
گھر ہے اللہ کا یہ اس کی تو تعمیر نہ توڑ
غل سدا وادی وحشت میں رکھوں گا برپا
اے جنوں دیکھ مرے پاؤں کی زنجیر نہ توڑ
دیکھ ٹک غور سے آئینۂِ دل کو میرے
اس میں آتا ہے نظر عالم تصویر نہ توڑ
تاج زر کے لیے کیوں شمع کا سر کاٹے ہے
رشتۂِ الفت پروانہ کو گل گیر نہ توڑ
اپنے بسمل سے یہ کہتا تھا دمِ نزع وہ شوخ
تھا جو کچھ عہد سو او عاشق دلگیر نہ توڑ
رقصِ بسمل کا تماشا مجھے دکھلا کوئی دم
دست و پا مار کے دم تو تہِ شمشیر نہ توڑ
سہم کر اے ظفرؔ اس شوخ کماندار سے کہہ
کھینچ کر دیکھ مرے سینے سے تو تیر نہ توڑ
فہرست