پیوند نہیں چاکِ گریباں کو رفو سے

حیدر علی آتش


عاشق ہوں میں نفرت ہے مرے رنگ کو رو سے
پیوند نہیں چاکِ گریباں کو رفو سے
دامن مرے قاتل کا نہ رنگیں ہو لہو سے
ہرچند کہ نزدیک ہو رگ ہائے گلو سے
گلزار جہاں پر نہ پڑی آنکھ ہماری
کوتاہ تھی عمر اپنی حباب لبِ جو سے
کرتا ہے وہ سفاک خط شوق کے پرزے
مہندی ملی جاتی ہے کبوتر کے لہو سے
عاشق ہوں مگر کرتے ہیں معشوق خوشامد
نازک ہے طبیعت مری بیمار کی خو سے
فہرست