سبزہ بالائے ذقن دشمن ہے خلقِ
اللہ کا
رہروؤں کی موت ہے خس پوش ہونا
چاہ کا
مل بٹھانا ہے فلک منظور کس دل
خواہ کا
برج میزان میں نہیں بے وجہ آنا
ماہ کا
بس کہ پھرتا ہے خیال آنکھوں میں اس دل
خواہ کا
رنگ رو کے اڑنے میں عالم ہے گردِ
راہ کا
صفحۂِ دل سے اٹھاؤں کس طرح نقش صنم
ملک میں ہوتا کسی کے گھر نہیں
اللہ کا
کم بضاعت سے خیالِ خام ہے کثرت کو فیض
اکتفا کرتا نہیں لشکر کو پانی
چاہ کا
راہِ ہستی میں ہے رخسارِ صنم سے زندگی
تازہ دم کرتا مسافر کو ہے تکیہ
راہ کا
لاش بھی گلیوں میں کھنچوا کر کیا ہے قتل یار
طول ہی دینا مزا ہے قصۂِ
کوتاہ کا
پست فطرت سے سوائے رنج کچھ حاصل نہیں
پا بہ گل کشتی کو کر دیتا ہے پانی
تھاہ کا
چھوڑ کر عشق صنم زاہد نہ ہو مفتون حور
کب یقیں لاتا ہے دانا دور کی
افواہ کا
دل کو ابروئے صنم کا شیفتہ کرتی ہے آنکھ
درس دیتا ہے معلم پہلے بسمِ
اللہ کا
اے صنم بندہ نوازی ہے صفت اللہ کی
حیف ہے خالی پھرے سائل تری
درگاہ کا
مائل معشوقۂِ خسرو نہ ہو اے کوہ کن
شیر کے جھوٹے کو کھانا کام ہے
روباہ کا
جوشِ اشک آتشیں کا باعث آہ سرد ہے
گرم کرتی ہے ہوا جاڑے کی پانی
چاہ کا
نزع میں آیا نہ بالیں پر مرے یار اس لیے
آخر ہر ماہ ہے معمول چھپنا
ماہ کا
ہوں وہ ابتر طفل جس کو جان کھونا کھیل ہے
کنج مرقد ہے گھروندا میری بازی
گاہ کا
آسماں روئے زمیں ہے یار ماہ چار دہ
حلقۂ احباب گرد اس کے ہے ہالہ
ماہ کا
وہ دہن ہے چشمۂِ شیریں تبسم موج ہے
وہ ذقن ہے چاہ خال اس میں توا ہے
چاہ کا
ناتواں میری طرح سے ہے جو عشق حسن سے
کوہ سے بھاری ترازو میں ہو پلہ
کاہ کا
شعر کہتا ہوں میں اے آتشؔ خدا کی حمد میں
میری ہر اک بیت پر عالم ہے بیتُ
اللہ کا