طاق ابرو ہیں پسند طبع اک دل
خواہ کے
عمر ہوتی ہے بسر گنبد میں بسمِ
اللہ کے
جاؤں کیوں کر بن بلائے اس بت دل
خواہ کے
بے طلب کوئی نہیں پہونچا حضور
اللہ کے
روئے نورانی کا تیرے ہو گیا ہے شک جو یار
رات بھر دوڑا ہوں کیا کیا پیچھے پیچھے
ماہ کے
شام وصل آئی ادھر موجود تھی صبح فراق
کم گھڑی سے بھی پہر ہیں اس شب
کوتاہ کے
داغ عشق حسن کا لقمہ نوالہ ہے کڑا
سیر دل ہیں کھانے والے اس غمِ جاں
کاہ کے
ناتوانی سے ہے حالت غیر ہجرِ یار میں
دم نکل جاتا ہے اپنا ساتھ ہر اک
آہ کے
عشق بت میں کوہ پر جا جا کے سر پٹکا کیے
پاؤں کو صدمے رہے پست و بلند
راہ کے
سالہا عشق زنخداں نے لہو پانی کیا
مدتوں روئے ہیں جا جا کر کنارے
چاہ کے
حشر تک یوں ہی رہیں گے غمزہ و انداز و ناز
عشق عالی منزلت سے حسن والا
جاہ کے
جا نکلتا ہے جو مجھ سا تشنۂِ دیدار حسن
ذکر یوسف کرنے لگتے ہیں کبوتر
چاہ کے
منزلِ مقصود میں چل کر نکالوں گا انہیں
آبلوں میں یہ جو ہیں پیوست کانٹے
راہ کے
اس بتِ بے دیں کی زلفوں کا اشارہ ہے یہی
اس بلا میں وہ پھنسیں عاشق ہوں جو
اللہ کے
کب سمائی ہے نظر میں روشنی آفتاب
چشمِ بینا رکھتے ہیں ذرے تری
درگاہ کے