عالم ارواح سے صحبت کوئی دم کیجیے

حیدر علی آتش


رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم کیجیے
عالم ارواح سے صحبت کوئی دم کیجیے
حالت غم کو نہ بھولا چاہیے شادی میں بھی
خندۂ گل دیکھ کر یاد اشک شبنم کیجیے
عیب الفت روزِ اول سے مری طینت میں ہے
داغِ لالہ کے لیے کیا فکر مرہم کیجیے
اپنی راحت کے لیے کس کو گوارا ہے یہ رنج
گھر بنا کر گردن محراب کو خم کیجیے
عشق کہتا ہے مجھے رام اس بت وحشی کو کر
حسن کی غیرت اسے سمجھاتی ہے رم کیجیے
رات صحبت گل سے دن کو ہم بغل خورشید سے
رشک اگر کیجے تو رشک بخت شبنم کیجیے
دیدہ و دل کو دکھایا چاہیے دیدار یار
حسن کے عالم سے آئینوں کو محرم کیجیے
شکل گل ہنس ہنس کے روز وصل کاٹے ہیں بہت
ہجر کی شب صبح رو کر مثل شبنم کیجیے
تھی سزا اپنی جو شادی مرگ قسمت نے کیا
ہجر میں کس نے کہا تھا وصل کا غم کیجیے
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجیے
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجیے
روز مردم شب کیے دیتا ہے سرمہ پوچھیے
خون ہوتے ہیں بہت شوق حنا کم کیجیے
آئینہ کو روبرو آنے نہ دیجے یار کے
شانہ سے آتشؔ مزاج زلف برہم کیجیے
فہرست