وہ زلفِ پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے

اسرار الحق مجاز


کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
وہ زلفِ پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے
اے شوقِ نظارہ کیا کہیے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے
اب گل سے نظر ملتی ہی نہیں اب دل کی کلی کھلتی ہی نہیں
اے فصل بہاراں رخصت ہو ہم لطفِ بہاراں بھول گئے
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے
یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہیے
اک نشتر زہر آگیں رکھ کر نزدیک رگِ جاں بھول گئے
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن
بحرِ زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف
فہرست