سنور رہی ہے تری بزم برہمی کے لیے

زہرا نگاہ


چھلک رہی ہے مئے ناب تشنگی کے لیے
سنور رہی ہے تری بزم برہمی کے لیے
نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
تجھے بھی بھول گئے ہم تری خوشی کے لیے
جو تیرگی میں ہویدا ہو قلب انساں سے
ضیا نواز وہ شعلہ ہے تیرگی کے لیے
کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال
ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
جہانِ نو کا تصور حیاتِ نو کا خیال
بڑے فریب دیے تم نے بندگی کے لیے
مئے حیات میں شامل ہے تلخی دوراں
جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لیے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست