دہانِ زخم سے خوں ہو کے حرفِ آرزو نکلا

شیخ ابراہیم ذوق


مرے سینے سے تیرا تیر جب اے جنگجو نکلا
دہانِ زخم سے خوں ہو کے حرفِ آرزو نکلا
مرا گھر تیری منزل گاہ ہو ایسے کہاں طالع
خدا جانے کدھر کا چاند آج اے ماہ رو نکلا
پھرا گر آسماں تو شوق میں تیرے ہے سرگرداں
اگر خورشید نکلا تیرا گرم جستجو نکلا
مئے عشرت طلب کرتے تھے ناحق آسماں سے ہم
وہ تھا لبریز غم اس خمکدہ سے جو سبو نکلا
ترے آتے ہی آتے کام آخر ہو گیا میرا
رہی حسرت کہ دم میرا نہ تیرے روبرو نکلا
کہیں تجھ کو نہ پایا گرچہ ہم نے اک جہاں ڈھونڈا
پھر آخر دل ہی میں دیکھا بغل ہی میں سے تو نکلا
خجل اپنے گناہوں سے ہوں میں یاں تک کہ جب رویا
تو جو آنسو مری آنکھوں سے نکلا سرخ رو نکلا
گھسے سب ناخنِ تدبیر اور ٹوٹی سر سوزن
مگر تھا دل میں جو کانٹا نہ ہرگز وہ کبھو نکلا
اسے عیار پایا یار سمجھے ذوقؔ ہم جس کو
جسے یاں دوست اپنا ہم نے جانا وہ عدو نکلا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست