بے تکلف، داغِ مہ مہرِ دہاں ہو جائے گا

مرزا غالب


گر نہ ‘اندوہِ شبِ فرقت ‘بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مہرِ دہاں ہو جائے گا
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پرتو مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
دل کو ہم صرف وفا سمجھے تھے ، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا
گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک ’’چشمِ خوں فشاں‘‘ ہو جائے گا
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا
فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے ، جی کا زیاں ہو جائے گا
فہرست