منہ سے مرے کیوں نہ آہ نکلے

مصحفی غلام ہمدانی


جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے
منہ سے مرے کیوں نہ آہ نکلے
دل وہ ہے کہ جس سے چاہ نکلے
منہ وہ ہے کہ جس سے آہ نکلے
زنداں کی تو اپنے سیر تو کر
شاید کوئی بے گناہ نکلے
مانیؔ سے کھنچی نہ خط کی تصویر
لاکھوں ورق سیاہ نکلے
خجلت یہ ہوئی کہ محکمے سے
شرمندہ مرے گواہ نکلے
رستے مسدود ہو گئے ہیں
اب دیکھیے کیوں کہ راہ نکلے
پلکیں نہیں چھوڑتیں کہ اک دم
آنکھوں سے تری نگاہ نکلے
اے آہ تو لے تو چل علم کو
تا آنسوؤں کی سپاہ نکلے
نکلا میں گلی سے اس کی اس طرح
جیسے کوئی دادخواہ نکلے
وہ سوختہ میں نہیں کہ جس کی
تربت سے گل و گیاہ نکلے
شعر اپنے جو مصحفیؔ پڑھوں میں
منہ سے ترے واہ واہ نکلے
فہرست