تھا سپند بزم وصل غیر ، گو بیتاب تھا

مرزا غالب


نالۂِ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر ، گو بیتاب تھا
مقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے !
خانۂِ عاشق مگر ساز صدائے آب تھا
نازشِ ایامِ خاکستر نشینی ، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنے جنونِ نارسا نے ، ورنہ یاں
ذرہ ذرہ روکشِ خرشیدِ عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے ؟
کل تلک تیرا بھی دل مہرووفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اک دیدۂِ بیخواب تھا
میں نے روکا رات غالب کو ، وگرنہ دیکھتے
اس کے سیلِ گریہ میں ، گردوں کفِ سیلاب تھا
فہرست