ہے ہجر کی شبِ وصال کے ساتھ

مصحفی غلام ہمدانی


صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
ہے ہجر کی شبِ وصال کے ساتھ
اے سروِ رواں ٹک اک ادھر دیکھ
جی جاتے ہیں تیری چال کے ساتھ
ہے تیغ و کمان کی سی نسبت
ابرو کو ترے ہلال کے ساتھ
مت زلف کو شانہ کر مرا جی
وابستہ ہے بال بال کے ساتھ
دل اپنا ہنوز سادگی سے
پیچیدہ ہے زلف و خال کے ساتھ
مہمان تھا کس کا تو شب اے ماہ
آتا ہے جو اس ملال کے ساتھ
رخساروں نے کچھ عرق کیا ہے
کچھ چشم ہے انفعال کے ساتھ
میں شیر ہوں بیشۂِ سخن کا
صحبت ہے سگ و شغال کے ساتھ
اکسیر ہے مصحفیؔ کا ملنا
یعنی کہ وہ ہے کمال کے ساتھ
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست