باتیں ہوئیں کچھ ایسی کہ بس بات بڑھ گئی

مصحفی غلام ہمدانی


بحث اس کی میری وقت ملاقات بڑھ گئی
باتیں ہوئیں کچھ ایسی کہ بس بات بڑھ گئی
بولا نہ مرغ صبح نہ آئی صدائے آہ
یارب شبِ فراق کی کیا رات بڑھ گئی
اصلاح بھی ضروری ہے اب اس کی شیخ جی
داڑھی تمہاری قبلۂ حاجات بڑھ گئی
پہنچے تھا اپنا دستِ ہوس جس پہ گاہ گاہ
وہ شاخ میوہ دار بھی ہیہات بڑھ گئی
شملہ رکھا جو دوش پہ لنگور کی سی دم
کیا اس میں شیخ جی کی کرامات بڑھ گئی
جس دن سے ان پہ پردۂِ پوشیدگی پڑا
اس دن سے قدر عالم جنات بڑھ گئی
دیں گالیاں جو تو نے صنم اک غریب کو
کیا گالیاں دیے سے تری ذات بڑھ گئی
دے مصحفیؔ کو نعمت و دولت تو اے کریم
تا سب کہیں کہ اس کی اب اوقات بڑھ گئی
فہرست