جو دم حقے کا دوں بولے کہ ''میں حقا نہیں پیتا''
بھروں جلدی سے گر سلفا، کہے ''سلفا نہیں پیتا''
خدا کے واسطے کر تو ہی ساقی اس کی دل داری
کہ میرے ہاتھ سے مے ، یار بے
پروا نہیں پیتا
اگرچہ مے کدہ معمور ہے لیکن ترا کیفی
برنگ گل بہ جز یک ساغر
صہبا نہیں پیتا
میں عالی ہمتی کا اس کی بندہ ہوں کہ جو میکش
نہیں ملتی جو مے ، تو بھنگ اور
بوزا نہیں پیتا
وزیر الملک کا از بس کہ مئے نوشاں پہ قدغن ہے
بجائے مے ، ہے وہ یاں کون جو
کتھا نہیں پیتا
لب سوفار میں سرخی کہاں سے اس کے آئی ہے ؟
جو تیرا تیر پیارے خونِ دل
میرا نہیں پیتا
کسی نے یہ فسوں کچھ پڑھ کے اس کافر پہ مارا ہے
کہ ان روزوں وہ پانی بھی مرے گھر
کا نہیں پیتا
پیے ہے اس طرح دیوانہ، مل مل تاک کے پتے
کہ تریاکی بھی یوں افیون کا
گھولا نہیں پیتا
کہے ہے مجھ سے یوں ہمدم کہ رت لاہن کی آئی ہے
ولے کیا فائدہ تجھ کو، تو ڈر
ٹھرا نہیں پیتا
چلے ہے روز غیروں کے گلے پر تیغ تیز اس کی
لہو کے گھونٹ کس دن عاشق
شیدا نہیں پیتا
شراب دوستگانی کا قدح رکھ ہاتھ پر اپنے
کہا میں نے جو ''پی'' اس کو، وہ یوں بولا'' نہیں پیتا''
نہیں ملتا وہ جو شیریں دہن اے مصحفیؔ تجھ کو
تو اس کے ہجر میں کیوں زہر کا
پیالا نہیں پیتا