تمہارے پوچھنے ہی سے عیاں ہے

مصطفٰی خان شیفتہ


کہوں میں کیا کہ کیا دردِ نہاں ہے
تمہارے پوچھنے ہی سے عیاں ہے
شکایت کی بھی اب طاقت کہاں ہے
نگاہ حسرت آہ ناتواں ہے
نشان پائے غیر اس آستاں پر
نہیں ہے میرے مرقد کا نشاں ہے
اجل نے کی ہے کس دم مہربانی
کہ جب پہلو میں وہ نامہرباں ہے
تجھے بھی مل گیا ہے کوئی تجھ سا
اب آئینے سے وہ صحبت کہاں ہے
یہ کس گل رو کا عالم یاد آیا
دمِ سرد اک نسیم بوستاں ہے
ہوئی بیتابی بلبل مؤثر
کہ گھبرایا ہوا کچھ باغباں ہے
سحر ان کو ارادہ ہے سفر کا
قیامت آنے میں شبِ درمیاں ہے
کوئی یاں لاؤ اس عیسیٰ نفس کو
کہ مرتا شیفتہؔ نام اک جواں ہے
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
ہزج مسدس محذوف
فہرست