عشق منت کش فسون نیاز

فیض احمد فیض


حسن مرہون جوش بادۂ ناز
عشق منت کش فسون نیاز
دل کا ہر تار لرزش پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقف سوز و گداز
سوزش دردِ دل کسے معلوم
کون جانے کسی کے عشق کا راز
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
ہو چکا عشق! اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز
تو ہے اور اک تغافل پیہم
میں ہوں اور انتظار بے انداز
خوف ناکامی امید ہے فیض
ورنہ دل توڑ دے طلسم مجاز
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست