اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی

باقی صدیقی


بے کلی بے سبب نہیں ہوتی
اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گلہ کریں غم سے
آپ سے بھول کب نہیں ہوتی
فکر جاں بے سبب نہیں ہوتی
اتنی لمبی ۔۔ تو شب نہیں ہوتی
کھل کے باتیں کرو کہ اب ہم سے
گفتگو زیرِ لب نہیں ہوتی
دل کی حالت عجیب ہوتی ہے
کوئی امید جب نہیں ہوتی
ہر نئے حادثے پہ حیرانی
پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گلے کریں باقیؔ
وہ نظر دور کب نہیں ہوتی
کوئی باقیؔ سنے سنے نہ سنے
داستاں ختم اب نہیں ہوتی
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست