کیا جلتی ہوئی آگ دکھائی نہیں دیتی

باقی صدیقی


زنجیر ہوس دل کو رہائی نہیں دیتی
کیا جلتی ہوئی آگ دکھائی نہیں دیتی
دنیا کے لیے بھول گئے اپنے خدا کو
کیا قبر کی آواز سنائی نہیں دیتی
کیا اپنے سوا کوئی نظر آئے نہ ہم کو
کیوں دل کو سکوں بات پرائی نہیں دیتی
جو مانگنا ہے مانگئے وہ اللہ سے اپنے
تسکیں کبھی دنیا کی گدائی نہیں دیتی
احساس سفر سے یہ گرہ کھلتی ہے باقیؔ
منزل کی خبر آبلہ پائی نہیں دیتی
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست