ایک لکیر خون کی بیچ میں کھینچ دی گئی

جون ایلیا


نشۂ شوق رنگ میں تجھ سے جدائی کی گئی
ایک لکیر خون کی بیچ میں کھینچ دی گئی
تھی جو کبھی سر سخن میری وہ خامشی گئی
ہائے کہن‌ سنن کی بات ہائے وہ بات ہی گئی
شوق کی ایک عمر میں کیسے بدل سکے گا دل
نبض جنون ہی تو تھی شہر میں ڈوبتی گئی
اس کی گلی سے اٹھ کے میں آن پڑا تھا اپنے گھر
ایک گلی کی بات تھی اور گلی گلی گئی
اس کی امید ناز کا مجھ سے یہ مان تھا کہ آپ
عمر گزار دیجیے عمر گزار دی گئی
دور بہ دور دل بہ دل درد بہ درد دم بہ دم
تیرے یہاں رعایت حال نہیں رکھی گئی
جونؔ جنوب زرد کے خاک بسر یہ دکھ اٹھا
موج شمال سبز جاں آئی تھی اور چلی گئی
کیا وہ گماں نہیں رہا ہاں وہ گماں نہیں رہا
کیا وہ امید بھی گئی ہاں وہ امید بھی گئی
مفتَعِلن مفاعِلن مفتَعِلن مفاعِلن
رجز مثمن مطوی مخبون
فہرست