پا پیادہ ہو کے کوئی شہسوار آیا تو کیا

جون ایلیا


بد دلی میں بے قراری کو قرار آیا تو کیا
پا پیادہ ہو کے کوئی شہسوار آیا تو کیا
زندگی کی دھوپ میں مرجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا ابرِ بہار آیا تو کیا
میرے تیور بجھ گئے میری نگاہیں جل گئی
اب کوئی آئینہ رو آئینہ دار آیا تو کیا
اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ پہ جب اعتبار آیا تو کیا
اب مجھے خود اپنی باہوں پر نہیں ہے اختیار
ہاتھ پھیلائے کوئی بے اختیار آیا تو کیا
وہ تو اب بھی خواب ہے بے دار بینائی کا خواب
زندگی میں خواب میں اس کے گزار آیا تو کیا
ہم یہاں ہیں بے گناہ سو ہم میں سے جونؔ ایلیا
کوئی جیت آیا یہاں اور کوئی ہار آیا تو کیا
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست