ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں

جگر مراد آبادی


نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
شروع راہِ محبت ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں
مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں دامن چھڑائے جاتے ہیں
جو دل سے اٹھتے ہیں شعلے وہ رنگ بن بن کر
تمام منظر فطرت پہ چھائے جاتے ہیں
میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں
رواں دواں لیے جاتی ہے آرزوئے وصال
کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں
کہاں منازل ہستی کہاں ہم اہل فنا
ابھی کچھ اور یہ تہمت اٹھائے جاتے ہیں
مری طلب بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں
الٰہی ترکِ محبت بھی کیا محبت ہے
بھلاتے ہیں انہیں وہ یاد آئے جاتے ہیں
سنائے تھے لب نے سے کسی نے جو نغمے
لب جگرؔ سے مکرر سنائے جاتے ہیں
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست