مثل ابرِ بہار اٹھتا ہے

عبدالحمید عدم


سو کے جب وہ نگار اٹھتا ہے
مثل ابرِ بہار اٹھتا ہے
تیری آنکھوں کے آسرے کے بغیر
کب غمِ روزگار اٹھتا ہے
دو گھڑی اور دل لبھاتا جا
کیوں خفا ہو کے یار اٹھتا ہے
ایسے جاتی ہے زندگی کی امید
جیسے پہلو سے یار اٹھتا ہے
زندگی شرکتوں سے چلتی ہے
کس سے تنہا یہ بار اٹھتا ہے
جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے
خستہ و دل فگار اٹھتا ہے
آج کی رات خیر سے گزرے
دردِ دل بار بار اٹھتا ہے
آؤ کچھ زندگی کے ناز سہیں
کس سے تنہا یہ بار اٹھتا ہے
ہوش میں ہو تو مے کدے سے عدمؔ
کب کوئی بادہ خوار اٹھتا ہے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست