غمِ ہستی کو آرام آ رہا تھا

عبدالحمید عدم


زباں پر آپ کا نام آ رہا تھا
غمِ ہستی کو آرام آ رہا تھا
خدا کا شکر تیری زلف بکھری
بڑی گرمی کا ہنگام آ رہا تھا
ستارے سو گئے انگڑائی لے کر
کہ افسانے کا انجام آ رہا تھا
تڑپ کر میں نے توبہ توڑ ڈالی
تری رحمت پہ الزام آ رہا تھا
عدمؔ دل کھو کے آسودہ نہیں ہم
برا تھا یا بھلا کام آ رہا تھا
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن
ہزج مسدس محذوف
فہرست