کیا کروں حشر میں ڈر ہے تری رسوائی کا

قمر جلالوی


میں تماشا تو دکھا دوں ستم آرائی کا
کیا کروں حشر میں ڈر ہے تری رسوائی کا
یہ نتیجہ ہو آخر جبل آرائی کا
بن گیا ایک تماشا سا تماشائی کا
آپ نے محفلِ اغیار کی رونق تو کہی
مجھ سے کچھ حال نہ پوچھا شبِ تنہائی کا
چارہ گر کا ہے کو لوں چارہ گری کا احساس
تو کوئی ٹالنے والا ہے مری آئی کا
طور پر طالبِ دیدار ہزاروں آتے
تم تماشہ جو نہ بناتے نہ تماشائی کا
ہاتھ اٹھائے تھے کہ ہاروں کی لڑیں ٹوٹ پڑیں
صدقہ پھول نے اتارا تری انگڑائی کا
شمع گل ہو گئی تارے بھی قمر ڈوب گئے
کوئی مونس نہ رہا اب شبِ تنہائی کا
فہرست