اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا

قمر جلالوی


ہوا شب کو عبث مئے کے لیے جانا تو کیا ہو گا
اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا
چمن والو قفس کی قید بے میعاد ہوتی ہے
تمھیں آؤ تو آ جانا میرا آنا تو کیا ہو گا
گرا ہے جام خود ساقی سے اس پر حشر برپا ہے
مرے ہاتھوں سے چھوتے گا پیمانہ تو کیا ہو گا
جگہ تبدیل کرنے کو تو کر لوں ساقی میں
وہاں بھی آ سکا مجھ تک نہ پیمانہ تو کیا ہو گا
بہارِ گل بنے بیٹھے ہو تم غیروں کی محفل میں
کوئی ایسے میں ہو جائے دیوانہ تو کیا ہو گا
سرِ محشر مجھے دیکھا تو وہ دل میں یہ سوچیں گے
جو پہچانا تو کیا ہو گا نہ پہچانا تو کیا ہو گا
حفاظت کے لیے اجڑی ہوئی محفل میں بیٹھے ہیں
اڑا دی گر کسی نے خاکِ پروانہ تو کیا ہو گا
زباں تو بند کرواتے ہو تم اللہ کے آگے
کہا ہم نے اگر آنکھوں سے افسانہ تو کیا ہو گا
قمر اس اجنبی محفل میں تم جاتے تو ہو لیکن
وہاں تم کو کسی نے بھی نہ پہچانا تو کیا ہو گا
فہرست